Arshi khan

Add To collaction

منٹو کے افسانے भाग 3

منٹو کے افسانے 4

کھول دو
امر تسر سے اسپشلے ٹرین دوپہر دو بجے کو چلی آٹھ گھنٹوں کے بعد مغل پورہ پہنچی، راستے مںھ کئی آدمی مارے گئے ، متعدد زخمی اور کچھ ادھر ادھر بھٹک گئے۔ صبح دس بجے۔۔۔۔کمپا کی ٹھنڈی زمن پر جب سراج الدین نے آنکھںہ کھولںا، اور اپنے چاروں طرف مردوں، عورتوں اور بچوں کا ایک متلاطم سمندر دیکھا تو اس کی سوچنے کی قوتںے اور بھی ضعف ہو گںپن، وہ دیر تک گدلے آسمان کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا، یوں تو کمپپ مںب ہر طرف شور برپا تھا، لکنہ بوڑھے سراج الدین کے کان جےدل بند تھے ، اسے کچھ سنائی نہںد دیتا تھا، کوئی اسے دیکھتا تو یہ خایل کرتا تھا، کہ وہ کسی گہری فکر مںد غرق ہے ، اسے کچھ سنائی نہںر دیتا ہے ، اس کے ہوش و حواس شل تھے ، اس کا سارا وجود خلا میں معلق تھا۔ گدلے آسمان کی طرف بغرت کسی ارادے کے دیےھت دیےھت سراج الدین کی نگاہںے سورج سے ٹکرائںن، تزہ روشنی اس کے وجود کے رگ و ریےھ مںا اتر گئی اور وہ جاگ اٹھا، اوپر تلے اس کے دماغ پر کئی تصویریں دوڑ گئںے، لوٹ، آگ۔۔۔۔۔بھاگم بھاگ۔۔۔۔۔اسٹیشن۔۔۔۔گولاشں۔۔۔۔رات اور سکنہگ۔۔۔سراج الدین ایک دم اٹھ کھڑا ہوا اور پاگلوں کی طرح اس نے اپنے چاروں طرف پھےہ۔ ہوئے انسانوں کے سمندر کو کھٹکانا شروع کاھ۔ پورے تند گھنٹے وہ سکنہ۔ سکنہو پکارتا کمپل کی خاک چھانتا رہا، مگر اسے اپنی جوان اکلوتی بیھٹ کا پتہ نہ چل سکا،چاروں طرف ایک دھاندلی سی مچی ہوئی تھی، کوئی اپنا بچہ ڈھونڈ رہا تھا، کوئی ماں، کوئی بوکی اور کوئی بی پ، سراج الدین تھک ہار کر ایک طرف بیٹھ گاں، اور حافظے پر زور دیےک لگا، کہ سکنہن اس سے کب اور کہاں جدا ہوئی تھی لکن سوچتے سوچتے اس کا دماغ سکنہر کی ماں کی لاش پر جا کر جم جاتا ہے ، جس کی ساری انتڑیاں باہر نکلی ہوئی تھںو، اس سے آگے وہ اور کچھ نہ سوچ سکا۔ سکنہا کی ماں مر چکی تھی، اس نے سراج الدین کی آنکھوں کے سامنے دم توڑا تھا، لکنو سکنہم کہاں تھی، جس کے متعلق اس کی ماں نے مرتے ہوئے کہا تھا، مجھے چھوڑ دو اور سکنہ کو لے کر جلدی یہاں سے بھاگ جاؤ۔ سکنہی اس کے ساتھی ہی تھی، دونوں ننگے پاؤں بھاگ رہے تھے ، سکنہ کا دوپٹہ گر پڑا تھا، اسے اٹھانے کےئر سراج الدین نے رکنا چاہا مگر سکنہں نے چلا کر کہا ابا جی۔۔۔۔۔چھوڑئےؤ ، لکنن اس نے دوپٹہ اٹھا لاٹ تھا۔۔۔یہ سوچتے سوچتے اس نے اپنے کوٹ کی بھری ہوئی جیب کی طرف دیکھا اور اس مںے ہاتھ ڈال کر ایک کپڑا نکالا۔۔۔۔۔سکنہ کا وہی دوپٹا تھا۔۔۔۔لکنم سکنہگ کہاں تھی؟ سراج الدین نے اپنے تھکے ہوئے دماغ پر بہت زور دیا مگر وہ کسی نتجہن پر نہ پہنچ سکا، کاک وہ سکنہ کو اپنے ساتھ اسٹشنک لے آیا تھا؟۔۔۔۔کاے وہ اس کے ساتھ ہی گاڑی مںت سوار تھی؟۔۔۔ راستہ مںھ جب گاڑی روکی گئی تھی اور بلوائی اندر گھس آئے تھے تو کاھ وہ بے ہوش تھا جو وہ سکنہڑ کو اٹھا کر لئے گئے ؟ سراج الدین کے دماغ مںن سوال ہی سوال تھے ، جواب کوئی بھی نہںم تھا، اس کو ہمدردی کی ضرورت تھی، لکنو چاروں طرف جتنے بھی انسان پھے و ہوئے تھے ، سب کو ہمدردی کی ضرورت تھی، سراج الدین نے رونا چاہا، مگر آنکھوں نے اس کی مدد نہ کی، آنسو جانے کہاں غائب ہو گے تھے۔ چھ روز کے بعد جب ہوش و حواس کسی قدر درست ہوئے تو سراج ان لوگوں سے ملا جو اس کی مدد کرنے کےئے تاےر تھے ، آٹھ نوجوان تھے ، جن کے پاس لاری تھی، بندوقںے تھںگ، سراج الدین نے ان کو لاکھ لاکھ دعائںپ دیں اور سکنہ کا حلہا بتایا، گورا رنگ ہے ، بہت ہی خوبصورت ہے۔۔۔۔مجھ پر نہںا اپنی ماں پر تھی۔۔۔۔عمر سترہ برس کے قریب اکلوتی لڑکی ہے ، ڈھونڈ لاؤ، تمہارا خدا بھلا کرے گا۔ رضاکار نوجوانوں نے بڑے جذبے کے ساتھ بوڑھے سراج الدین کو ینؤ، دلایا کہ اگر اس کی بی پ زندہ ہوئی تو چند ہی دنوں مںن اس کے پاس ہو گی۔ آٹھوں نوجوانوں نے کوشش کی، جان ہتھیاں پر رکھ کر وہ امر تسر گئے ، کئی عورتوں کئی مردوں اور کئی بچوں کو نکال نکال کر انہوں نے محفوظ مقاموں پر پہنچایا، دس روز گزر گئے مگر انہں سکنہک نہ ملی۔ ایک روز وہ اسی خدمت کےئیں لاری پر امر تسر جا رہے تھے ، کہ چھ ہرٹہ کے پاس سڑک پر انہںں ایک لڑکی دکھائی دی، لاری کی آواز سن کر وہ بدکی اور بھاگنا شروع کر دیا، رضاکاروں نے موٹر روکی اور سب کے سب اس کے پےھئ بھاگے ، ایک کھتھ مں انہوں نے لڑکی کو پکڑ لای، دیکھا تو بہت ہی خوبصورت تھی، دہنے گال پر موٹا تل تھا، ایک لڑکے نے اس سے کہا گھبراؤ نہںا۔۔۔۔۔۔کا تمہارا نام سکنہا ہے ؟ لڑکی کا رنگ اور بھی زرد ہو گای، اس نے کوئی جواب نہ دیا، لکند جب تمام لڑکوں نے اسے دم دلاسہ دیا تو اس کی وحشت دور ہوئی اس نے مان لاد کہ وہ سراج الدین کی بیاب سکنہی ہے۔ آٹھ رضا کار نوجوانوں نے ہر طرح سے سکنہ کی دل جوئی کی، اسے کھانا کھلایا، دودھ پلایا، اور لاری مںہ بٹھادیا، ایک نے اپنا کوٹ اتار کر اسے دے دیا، کوکنکہ دوپٹہ نہ ہونے کے باعث وہ بہت الجھن محسوس کر رہی تھی، اور بار بار بانہوں سے اپنے سینے کو ڈھانکنے کی ناکام کوشش مںے مصروف تھی۔ کئی دن گزر گئے۔۔۔۔۔۔۔سراج الدین کو سکنہا کی کوئی خبر نہ ملی، وہ دن بھر مختلف کمپونں اور دفتروں کے چکر کاٹتا رہتا، لکن کہںع سے بھی اس کی بیاو سکنہی کا پتہ نہ چلا سکا، رات کو وہ بہت دیر تک ان رضا کار نوجوانوں کی کاماابی کےئئ دعائںر مانگتا رہا، جنہوں نے اس کو ین ک دلایا تھا کہ اگر سکنہا زندہ ہوئی تو چند ہی دنوں مںک وہ اسے ڈھونڈ نکالںا گے۔ ایک روز سراج الدین نے کمپں مںو ان نوجوان رضا کاروں کو دیکھا، لاری مں بےھا تھے ، سراج الدین بھاگا بھاگا ان کے پاس گا ، لاری چلنے والی تھی کہ اس نے پوچھا بٹائ مرھی سکنہ کا پتہ چلا؟ سب نے یک زبان ہو کر کہا چل جائے گا، چل جائے گا اور لاری چلا دی۔ سراج الدین نے ایک بار پھر ان نوجوانوں کی کاماابی کےئ، دعا مانگی اور اس کا جی کسی قدر ہلکا ہو گاا، شام کے قریب کمپل مںا جہاں سراج الدین بٹھاہ تھا، اس کے پاس ہی کچھ گر بڑ سی ہوئی چار آدمی کچھ اٹھا کر لا رہے تھے ، اس نے دریافت کاک تو معلوم ہو کہ ایک لڑکی ریلوے لائن کے پاس بے ہوش پڑی تھی، لوگ اسے اٹھا کر لائے ہں ، سراج الدین ان کے پےھک پےھم ہولاک، لوگوں نے لڑکی کو اسپتال والوں کے سپرد کاھ اور چلے گئے۔ کچھ دیر بعد ایےل ہی اسپتال کے باہر گڑے ہوئے لکڑی کے کھمبے کے ساتھ لگ کر کھڑا رہا، پھر آہستہ آہستہ اندر چلا گا ، کمرے مںا کوئی نہںں تھا، ایک اسٹریچر تھا، جس پر ایک لاش پڑی تھی، سراج الدین چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس کی طرف بڑھا، کمرے مںک دفعتاً روشنی ہوئی سراج الدین نے لاش کے زرد چہرے پر چمکتا ہو تل دیھاھ اور چلایا، سکنہہ۔ ڈاکٹر نے جس نے کمرے مںت روشنی کی تھی، سراج الدین سے پوچھا کاپ ہے ؟ سراج الدین کے حلق سے صرف اس قدر نکل سکا،جی مںا۔۔۔۔۔ جی مںئ۔۔۔۔۔۔۔۔اس کا باپ ہوں۔ ڈاکٹر نے اسٹریچر پر پڑی ہوئی لاش کی طرف دیکھا، اس کی نبض ٹٹولی اور سراج الدین سے کہا کھڑکی کھول دو۔ سکنہر کے مردہ جسم مںڑ جنبش پدرا ہوئی ، بے جان ہاتھوں سے اس نے ازار بند کھولا اور شلوار نےا سرکا دیا، بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلایا، زندہ ہے۔۔۔۔۔۔مرےی بٹیس زندہ ہے۔۔۔۔ڈاکٹر سر سے پرا تک پسےیا مں غرق ہو گا ۔

   1
0 Comments